حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،راولپنڈی-اسلام آباد/قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کہتے ہیں 16دسمبر کا ہی سیاہ دن تھا جس میں ملکی تاریخ کے سنگین واقعات سقوط ڈھاکہ اور سانحہ اے پی ایس رونما ہو ئے جن کو کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے ،سقوط ڈھاکہ کو 5دہائیاں بیت گئیں، جب پاکستان دو لخت ہوا، چھ سال قبل اسی روز پشاور میں دہشتگردوں نے ایسا گھناﺅنا کھیل کھیلا کہ اے پی ایس میں اسکول میں مشغول تعلیم بچوں سمیت 140سے زائد افرادکو بے دردی سے شہید کر دیا، زندہ قومیں تاریخ اور تلخ حقائق سے سبق سیکھتی ہیں بحیثیت قوم ہمیں غور کرنا ہوگا کہ ہم نے ان غلطیوں سے کیا سبق سیکھا ؟ہمیں دشمن کو پہچاننا ہوگا اور ان سازشوں کوقومی یکجہتی کے ذریعے ناکام بنانا ہوگا۔
16دسمبر کے حوالے سے اپنے پیغام میں قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے قوم کے نام اپنے پیغام میں کہاکہ سانحہ اے پی ایس پاکستان کی تاریخ کے ان المناک سانحات میں سے ایک اندوہناک واقعہ ہے جب تعلیم میں مشغول بچوں سمیت 140ہم وطنوں کو بے دردی سے شہید کردیا گیا ایک جانب وہ غم سے نڈھال تھے تو دوسری جانب افسوس ان مظلوم ورثاء اور والدین کو فوری انصاف کی فراہمی کےلئے بھی دربدر کی ٹھوکریں کھانا پڑیں ،یہ ہمارے نظام پر بڑا سوال ہے اسکے ساتھ ساتھ سانحہ اے پی ایس کے بعد بھی ایسے سانحات کا سلسلہ تھما نہیں ،کچھ روز قبل ایک سری لنکن کے ساتھ ہونے والا ناروا سلو ک بھی اسی انتہاء پسندی و دہشت گردی کا شاخسانہ ہے۔ اس طرح کے واقعات کی وجہ سے نیشنل ایکشن پلان مرتب کیاگیا مگر افسوس اس کی رو ح کے مطابق عمل درآمد نہ کیاگیا جبکہ قوم کو جس تربیت کی ضرورت تھی ، ذہن سازی کی ضرورت تھی اس جانب بھی کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں اٹھایاگیا ، ہم بارہا متوجہ کرچکے ہیں کہ ریاست و حکومت اس سلسلے میں ذمہ داریوں کو نبھائے جبکہ علمائ، میڈیاسمیت تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی معاشرے سے انتہاء پسندی اور شدت پسندی کے خلاف اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ اس قسم کے واقعات رونما نہ ہوسکیں کیونکہ ایسے سانحات جہاں انتہائی قابل مذمت، ظلم، سنگین وہیں یہ قوموں کو جھنجھوڑتے ہیں اور ان سے سبق حاصل کیا جاتاہے۔
سقوط ڈھاکہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا مزید کہناتھا کہ عظیم قومیں تلخ تجربات اور تلخ حقائق سے سبق سیکھتی ہیں ۔بحیثیت قوم ہمیں غور کرنا ہوگا کہ ہم نے ان غلطیوں سے کیا سبق سیکھا؟ملک میں سیاسی ہم آہنگی ، جمہوریت کی تقویت، آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی صرف بیانات کی بجائے عملی طور پر اپنانے کی ضرورت ہے، اختلاف رائے کو دبانے کی بجائے باہمی احترام سے مسائل کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے جبکہ انا کی بجائے ملکی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ سازی بھی ضروری ہے ، دشمن ملک میں نفرت ، فرقہ بندی ، انتہاءپسندی پھیلانے کے ساتھ ساتھ مختلف حیلوں سے امن کو تباہ کرنے پر تلا بیٹھا ہے یہ سازشیں اتحاد اور ایک قوم بن کر ہی ختم کی جاسکتی ہیں۔